تیری یاد
(Teri Yaad)
”تیری یاد “ ...(انگریزی: Teri Yaad)(ہندی:तेरी याद) پاکستان کی پہلی فیچر فلم ہے جو 7 اگست 1948 کو عیدالفطر کے موقع پر لاہور کے پربھات سینما میں ریلیز ہوئی۔یہ فلم اردو زبان میں بنائی گئی، جس کے ہدایت کار داؤد چاند تھے اور یہ دیوان سرداری لال اور ڈی پی سنگھا کی مشترکہ پروڈکشن تھی، جبکہ اس پر سرمایہ کاری ایس پی سنگھا نے کی۔

پس منظر: پاکستان کی ابتدائی فلمی صنعت
1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے میں برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت بھی تقسیم ہوئی۔ لاہور، ممبئی اور کولکتہ اس وقت فلمسازی کے اہم مراکز تھے۔ تقسیم کے بعد لاہور کی فلم انڈسٹری پاکستان کے حصے میں آئی، تاہم 1947 کے فسادات میں اسے شدید نقصان پہنچا تھا۔ فلم سٹوڈیوز بری طرح تباہ ہو چکے تھے اور ویرانی کا عالم تھا۔
قیام پاکستان کے بعد اگست 1947 سے ہی تباہ شدہ اور ویران حال فلم سٹوڈیوز کی بحالی کا کام شروع ہو گیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اپر مال پر موجود پنچولی سٹوڈیو (جسے پردھان سٹوڈیو بھی کہا جاتا تھا) کو دوبارہ کھولا گیا۔ یہ سٹوڈیو سیٹھ دل سکھ ایم پنچولی کے قبضے میں تھا اور انکم ٹیکس کے ایک وکیل دیوان سرداری لال اس کے منتظم تھے۔
اسی پنچولی سٹوڈیو میں سب سے پہلے 16 فروری 1948 کو فلم "شاہدہ” کا افتتاح ہوا۔ اس کے بعد تقریباً تین ماہ کے عرصے میں داؤد چاند کی "تیری یاد”، عاشق بھٹی کی "دو کنارے”، فلم ساز شیخ محمد حسین کی "ہچکولے” اور ظہور راجہ کی "جہاد” جیسی فلموں پر کام شروع ہو گیا۔ ان تمام ابتدائی کوششوں میں سے، پاکستان کی سب سے پہلے ریلیز ہونے والی فلم کا اعزاز "تیری یاد” کے حصے میں آیا۔

نمائش اور باکس آفس رپورٹ:
"تیری یاد” 7 اگست 1948 کو لاہور کے پربھات سینما میں ریلیز ہوئی، اسی سینما کا نام بعد میں صنوبر اور پھر ایمپائر بھی رکھا گیا۔ یہ فلم صرف 5 ہفتے چل سکی اور باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوئی۔ کراچی میں یہ فلم 4 نومبر 1949 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی اور وہاں بھی لاہور کی طرح صرف 5 ہفتے چلی۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی اولین پیشکش ہونے کی وجہ سے فلمی حلقوں اور فلم بینوں کو اس سے بہت امیدیں وابستہ تھیں اور اسے ابتدائی طور پر اچھا ردعمل ملا، لیکن یہ فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
پروڈکشن:
"تیری یاد” کو محض 90 دنوں میں مکمل کیا گیا تاکہ اس کا بجٹ کم سے کم رکھا جا سکے۔ اس کے لیے کاسٹ میں تقریباً نئے چہروں، یا پھر ایسے اداکاروں کو شامل کیا گیا جن کی کوئی خاص مارکیٹ ویلیو نہیں تھی۔

فلمی عملہ:
* ہدایت کار: داؤد چاند
* نغمہ نگار: قتیل شفائی، تنویر نقوی، طفیل ہوشیارپوری
* عکاسی: رضا میر(رضامیر معروف ٹی وی اداکار شامل خان کے والد تھے)
* موسیقی: ماسٹر عنایت علی ناتھ، انور کریم داد اور دیگر
* کہانی، منظر نامہ اور مکالمے: خادم محی الدین (بی اے)
کاسٹ:
* ناصر خان …… فلم کے ہیرو روپ کا کردار۔ (معروف بھارتی اداکار دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی تھے۔)
* آشا پوسلے …… ہیروئن شیلا کا مرکزی کردار(موسیقار عنایت علی ناتھ کی صاحبزادی تھیں)
* رانی کرن …… ہیروئن شیلا کی ماں (موسیقار عنایت علی ناتھ کی صاحبزادی اور ہیروئن آشا پوسلے کی بڑی بہن تھیں)
* جہانگیر …… سائیڈ ہیرو ولایت پلٹ نوجوان لَلّت (معروف ٹی وی اداکار شامل خان کے والد تھے۔)
* نجمہ …… سائیڈ ہیروئن (جہانگیر کی محبوبہ کا کردار)
* شعلہ
* نذر
* زبیدہ
* ماسٹر غلام قادر
* سردار محمد

کہانی:
فلم کی کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک رئیس مرتے وقت اپنی جائیداد اپنی چند ماہ کی بچی اور اپنے ایک دوست کے بیٹے چندر بل کے نام کر جاتا ہے۔ رئیس کی موت کے بعد چندر بل کے دل میں لالچ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ بچی کے دودھ کی بوتل میں زہر ملا دیتا ہے، تاکہ اس کی موت کے بعد وہ تمام جائیداد کا قانونی وارث بن سکے۔ بچی کے قتل کا بھید کھل جانے پر قاتل کو شہر چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جا بسنے کی شرط پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
رئیس کی بیوی، جو رانی صاحبہ کہلاتی ہیں، دل کو بہلانے کے لیے اپنے ایک فیملی ڈاکٹر کمار صاحب کی مدد سے یتیم خانے سے ایک لاوارث بچی لا کر اس کی پرورش شروع کر دیتی ہیں۔ 15 سال کا عرصہ بیت جاتا ہے اور رانی صاحبہ کی لے پالک بیٹی شیلا جوان ہو جاتی ہے۔
اسی اثنا میں ایک روز اتفاقاً رانی صاحبہ کی ملاقات میڈیکل کے ایک طالبعلم روپ سے ہوتی ہے، اور اسے رہائش کے لیے کوئی جگہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ ایک ہفتے کے لیے اسے اپنے یہاں رکھ لیتی ہیں۔ اس دوران روپ اور شیلا میں محبت پروان چڑھنے لگتی ہے، لیکن جب اس کی خبر رانی صاحبہ کو ہوتی ہے تو وہ آگ بگولہ ہوکر روپ کو گھر سے نکال دیتی ہیں۔ رانی شیلا کی شادی ایک ولایت پلٹ صاحبزادے لَلّت سے کرنا چاہتی ہیں، لیکن پھر اچانک کسی وجہ سے وہ شیلا کی شادی روپ ہی سے کرنے پر رضامند ہو جاتی ہیں۔
روپ تار دے کر اپنے باپ کو بلواتا ہے تو وہ فوراً آ جاتا ہے۔ اب جس وقت روپ کا باپ رانی صاحبہ سے ملنے جاتا ہے تو وہ اسے فوراً پہچان لیتی ہیں کہ یہ وہی چندر بل ہوتا ہے جس نے رانی کی بیٹی کو زہر دے کر مار ڈالا تھا۔ رانی صاحبہ اسے دیکھتے ہی غصے سے لال پیلی ہو جاتی ہیں اور ڈانٹ پھٹکار کر اسے گھر سے نکال دیتی ہیں۔ اس صورتحال میں روپ بہت دل گرفتہ ہوتا ہے؛ ایک تو باپ کی بے عزتی، اور اوپر سے شیلا سے شادی کی بات بنتے بنتے رہ جانے کا غم، اسے سمجھ نہیں آتی کہ آخر وہ کرے تو کیا کرے؟ اب روپ کے باپ سے بیٹے کی حالت دیکھی نہیں جاتی اور وہ رانی صاحبہ کی کوٹھی کے سامنے ہی خود کو گولی مار کر جان دے دیتا ہے۔ رانی اب بھی شیلا کی شادی روپ سے کرنے پر رضامند نہیں ہوتی، لیکن پھر اپنی ایک ہمدرد کے سمجھانے پر وہ شیلا اور روپ کی شادی کردیتی ہے۔

موسیقی اور گانے:
فلم کا ایک مثبت پہلو اس کے گانے اور موسیقی تھی، جو ناچ رنگ کہانی اور منظر نامے کی کمی کو کافی حد تک پورا کرنے میں کامیاب رہے۔ بطور پلے بیک سنگر آشا پوسلے، منور سلطانہ اور علی بخش ظہور نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس فلم کے لیے کل 13 گیت ریکارڈ ہوئے تھے، لیکن فلم میں صرف 10 کو شامل کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان گانوں کے گراموفون ریکارڈ تیار نہیں ہوئے تھے، جس کی وجہ سے یہ عوام تک نہیں پہنچ سکے، تاہم جو گیت فلم میں شامل کئے گئے وہ یہ تھے:
1۔ہمیں چھوڑ نہ جانا جی، منہ موڑ نہ جانا جی، او بھولے بالم
2۔اپنے بھاگ کو روئے، آنکھوں سے پی پی کر اجڑے سہاگ کو روئے
3۔میں تتلی بن کر آئی ، جوبن نے لی انگڑائی
4۔کیا یاد سہانی آئی،پھر گائے ہے گیت سہانا، کیا رُت سہانی آئی
5۔چھلکی جوانی، ہائے جیا مورا ڈولے، پریم کہانی پنچھی بولے
6۔ہمیں تو تھا انتظار، سارا چمن بول رہا ہے پپیہا بہار آئی
7۔بول بول ری ویریا، میں کہاں گئی تھی؟ ہاں سنو سنو جی!
8۔ او پیا بلائے، آئے اور جی کی باتوں میں نیند کاسبق پڑھائے
9۔ محبت کا مارا چلا جارہا ہے،چلا جارہا ہے
10۔ اے دل والو! ساجن گئے ، ہم اُجڑ گئے، پریتم چلے ٹھکرا کے

تنقید:
"تیری یاد” کو عامیانہ محبت کی فرسودہ کہانی، ہدایت کار کی فلم پر کمزور گرفت، اور عکاسی کی خامیوں کے باعث ناکام سمجھا جاتا ہے۔ فلم کے شروع ہی میں ماحول کو ڈرامائی کردار بخشنے کی کوشش کی گئی تھی، فلم کا آغاز ایک طوفانی رات سے ہوتا ہے جہاں ایک عورت ایک جھونپڑی میں اپنی زندگی کی سرگزشت سناتی ہے، لیکن آگے چل کر داستان کی بعض کڑیاں اس طوفانی ماحول میں کھو جاتی ہیں اور دیکھنے والا ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے جیسے اندھیرے میں راستہ ڈھونڈ رہا ہو، لیکن کہانی کا کوئی سر پیر نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ پوری فلم دیکھ لینے کے بعد بھی یہ راز فاش نہیں ہوتا کہ آخر فلم کو اس قدر ہنگامہ خیز طریقے سے کیوں شروع کیا گیا؟
اداکاری کے لحاظ سے، آشا پوسلے اور نجمہ کی اداکاری قدرے بہتر تھی۔ رانی کرن نے شیلا کی ماں کا رول کیا ہے، جس میں اداکاری کا کافی مارجن تھا لیکن وہ اپنا کردار نبھانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ناصر خان اور جہانگیر سمیت باقی تمام فنکاروں نے بھی تقریباً مایوس ہی کیا۔ مجموعی طور پر، فلم کے گیت برے نہیں تھے اور موسیقی بھی خاطر خواہ تھی، البتہ کہانی، ہدایت کاری اور عکاسی کی خامیوں کے باعث یہ فلم کامیاب نہ ہو سکی۔
حوالہ جات:
1- روزنامہ امروز لاہور، 7 ستمبر 1948ء
2- "فلمی تبصرے” از شوکت علی چھینہ
3- غیر مطبوعہ ریکارڈ از شاہد پردیسی
4- "پاکستانی اردو فلمی گیتوں کا سفر” از فیاض احمد اشعر
(Pakistan`s 1st Feature Film Teri Yaad)