خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں منگل کے روز ہونے والا بم دھماکہ، جس میں اسسٹنٹ کمشنر فیصل سلطان سمیت پانچ سرکاری افسران شہید اور 11 زخمی ہوئے، پاکستان کے داخلی سیکیورٹی نظام پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔ یہ واقعہ محض ایک سانحہ نہیں، بلکہ ریاستی کمزوریوں اور سیکیورٹی پالیسی کی خامیوں کا کھلا ثبوت ہے۔
یہ حملہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام، معاشی دباؤ اور سیکیورٹی خدشات کا شکار ہے۔ ایک طرف عوام مہنگائی اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر سراپا احتجاج ہیں، تو دوسری طرف سرحدی علاقوں میں شدت پسندی کی سرگرمیاں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہیں۔ ان حالات میں سرکاری افسران کی اس طرح شہادت نہایت افسوسناک اور خطرے کی گھنٹی ہے۔
یہ سوال اب شدت سے اٹھ رہا ہے کہ اگر سرحدی علاقوں میں انتظامی افسران اور سیکیورٹی فورسز محفوظ نہیں، تو عام شہری کس حال میں ہوں گے؟ ریاست کی رٹ کہاں ہے؟ انٹیلی جنس نظام کی ناکامی کیوں ہو رہی ہے؟ ماضی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے بڑے آپریشنز کیے گئے، جن کے بعد حکومت نے بلند بانگ دعوے کیے کہ دہشت گردی کا مکمل قلع قمع کر دیا گیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ شدت پسند عناصر اپنی جڑیں اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ہر موقع پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔
افغان سرحد کے قریب باجوڑ جیسے حساس علاقے میں اس نوعیت کا حملہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گرد عناصر دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ نہ صرف سیکیورٹی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے بلکہ سیاسی قیادت کے لیے بھی ایک سخت پیغام ہے کہ اگر بروقت مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو ملک ایک بار پھر بدامنی اور خوف کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے اس واقعے کی رسمی مذمت اور تحقیقات کا اعلان کیا گیا، لیکن اب محض بیانات اور اعلانات کافی نہیں۔ اس خطرناک رجحان کا مستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔
سرحدی علاقوں میں مؤثر نگرانی، انٹیلی جنس سسٹم کی بہتری اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عوام کو اعتماد میں لے کر ایک اجتماعی قومی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
باجوڑ حملے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس سانحے کا درد محض شہداء کے لواحقین کا نہیں، بلکہ ہر اس پاکستانی کا ہے جو اس ملک میں امن اور محفوظ مستقبل کا خواہاں ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم صرف مذمتی بیانات سے آگے بڑھیں اور عمل کی سیاست اختیار کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو تاریخ ہم سے یہ سوال ضرور کرے گی کہ ہم نے اپنے وطن کی نسلوں کے لیے کیا چھوڑا؟
