کیا ٹرمپ کا امن منصوبہ تبدیل کیا گیا؟

تحریر: شوکت علی چھینہ

حالیہ دنوں میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ بیس نکاتی امن منصوبہ، جس کا مقصد اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی اور غزہ میں استحکام لانا بتایا گیا، مسلم دنیا میں ایک نئی بحث کا باعث بن چکا ہے۔
پاکستان، قطر، مصر، ترکی اور دیگر مسلم ممالک کے مطابق، ٹرمپ نے جو مسودہ ابتدائی طور پر شیئر کیا تھا، وہ اُس منصوبے سے مختلف ہے جو بعد میں عوامی سطح پر جاری کیا گیا۔

پاکستان کا مؤقف — “یہ ہمارا مسودہ نہیں”
پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پارلیمان میں واضح الفاظ میں کہا کہ ٹرمپ کا اعلان کردہ امن منصوبہ “مسلم ممالک کے تیار کردہ مسودے” سے مختلف ہے۔
ان کے مطابق اصل دستاویز میں مکمل اسرائیلی انخلا، دو ریاستی حل کا واضح ذکر، اور غزہ کی مقامی انتظامیہ کے اختیارات سے متعلق شقیں شامل تھیں، مگر اعلان شدہ ورژن میں یہ نکات یا تو کمزور کر دیے گئے یا حذف کر دیے گئے۔

اسحاق ڈار کے مطابق:
“جو مسودہ ہمیں دکھایا گیا تھا، وہ یہی نہیں تھا۔ کچھ نکات بعد میں تبدیل یا نکال دیے گئے ہیں۔”

قطر، مصر اور ترکی کے تحفظات:
پاکستان کے ساتھ ساتھ قطر نے بھی تصدیق کی کہ اعلان شدہ منصوبے میں وہ تمام نکات شامل نہیں ہیں جن پر مسلم ممالک کے نمائندوں نے اتفاق کیا تھا۔
قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ “کچھ بنیادی نکات غائب ہیں یا اُن کی وضاحت کم کر دی گئی ہے، خاص طور پر غزہ کی سلامتی اور عبوری حکومت کے ڈھانچے کے بارے میں۔”

اسی طرح مصر نے بھی واضح کیا کہ اس منصوبے پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ نہ صرف فلسطینی عوام کے مفادات کی مکمل عکاسی نہیں کرتا بلکہ خطے میں دیرپا امن کی ضمانت بھی نہیں دیتا۔
ترکیہ اور سعودی عرب کے سفارتی ذرائع کے مطابق، اُن کے تحفظات خاص طور پر مغربی کنارے میں اسرائیلی قبضے کے خطرے اور دو ریاستی حل کے غیر واضح رہنے سے متعلق ہیں۔

اصل مسودہ اور اعلان شدہ منصوبے میں فرق:
ذرائع کے مطابق ابتدائی مسودے اور ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے میں چند نمایاں فرق سامنے آئے ہیں۔

1. اسرائیلی انخلا:
مسلم ممالک کے مسودے میں اسرائیل کے مکمل اور غیر مشروط انخلا کی شرط رکھی گئی تھی،
جبکہ اعلان شدہ منصوبے میں اسے مرحلہ وار یا جزوی انخلا میں بدل دیا گیا۔

2. فلسطینی ریاست کا ذکر:
مسودے میں دو ریاستی حل کا واضح راستہ شامل تھا، مگر اعلان شدہ ورژن میں اسے صرف “امید” یا “امکان” کے طور پر پیش کیا گیا۔

3. غزہ کی عبوری حکومت:
مسلم ممالک کے مسودے میں مقامی فلسطینی نمائندگی پر زور دیا گیا، جبکہ نئے ورژن میں ایک غیر واضح بین الاقوامی فورس (“استحکام فورس”) کا ذکر کیا گیا۔

4. مغربی کنارے کا معاملہ:
مسودے میں اسرائیلی توسیع روکنے کی شرط شامل تھی، لیکن اعلان شدہ منصوبے میں یہ ضمانت غائب ہے۔

حماس کا ردعمل:
حماس نے منصوبے کے کئی نکات قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن اس کے ساتھ اپنی شرائط بھی رکھی ہیں۔ ان شرائط میں قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد کا بلا تعطل داخلہ، اور غزہ میں مکمل خود مختاری شامل ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ حماس نے منصوبے کی تمام شرائط من و عن تسلیم نہیں کیں بلکہ اپنے سیاسی اور قومی اصولوں پر قائم رہی ہے۔

نتیجہ:
صورتحال کا مجموعی جائزہ بتاتا ہے کہ:
× ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے اور مسلم ممالک کے تیار کردہ مسودے میں واضح فرق موجود ہے۔
× پاکستان، قطر، مصر، ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک اسے “تبدیل شدہ ورژن” قرار دے چکے ہیں۔
×حماس کی جزوی رضامندی کے باوجود فلسطینی عوام اور مسلم دنیا میں اس منصوبے پر اعتماد کا فقدان برقرار ہے۔

یہ معاملہ صرف ایک سفارتی اختلاف نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی مستقبل کی سیاست کا ایک نازک موڑ ہے۔ ممکن ہے کہ ایک مسودے کے چند حذف شدہ نکات ہی پورے خطے کے طاقت کے توازن کو بدل دیں۔

×(معلومات کے ماخذ: الجزیرہ، ڈان، دی نیوز، گلف ٹوڈے اور بی بی سی کی تازہ رپورٹس)
×تحقیقی معاونت:ChatGPT(GPT-5)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے