پھیرے۔۔۔ (فلم)

"پھیرے” (1949ء) (انگریزی: Pheray) (ہندی:फेरे)میں ریلیز ہونے والی ایک پاکستانی پنجابی زبان کی فلم ہے، جسے نذیر نے پروڈیوس کیا اور مسٹر مجید نے نذیر کی زیرِ نگرانی ڈائریکٹ کیا۔ یہ پاکستان کی پہلی پنجابی زبان میں بنائی گئی سلور جوبلی فلم ہے، جو عید الفطر کے روز 28جولائی1949ءکوریلیز کی گئی،جس نے لاہور کے پیلس سینما پرمسلسل 25 ہفتے چل کر یہ اعزاز حاصل کیا۔کراچی میں اس فلم کی نمائش 7اپریل 1950ءکوپلازہ سینما پر ہوئی، لیکن وہاں اسے کوئی خاص رسپانس نہ ملا، البتہ اس نے بھارت میں شاندار بزنس کیا۔

کہانی:
فلم کی کہانی ہندو معاشرتی پس منظر میں محبت، مخالفت اور بالآخر کامیابی پر مبنی ہے۔ "پھیرے” کو پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
فلم کی کہانی رانی اور جانی کے گرد گھومتی ہے، جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ رانی کا بھائی راجو ان کے رشتے کے خلاف ہوتا ہے اور رانی کی شادی ایک دولت مند شخص چوہدری لچھو سے طے کر دیتا ہے۔ شادی کی رسم کے دوران سات پھیرے لینے کی روایت میں رانی کی سہیلی لچھی دلہن کے روپ میں آگے آ جاتی ہے اور پھیرے مکمل کر لیتی ہے۔ شادی کے بعد رانی بیماری کا بہانہ بنا کر چوہدری لچھو سے بچتی رہتی ہے۔ بالآخر چوہدری لچھو حقیقت جان کر شادی کی تقریب دوبارہ منعقد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، جس میں رانی اور جانی کی شادی ہو جاتی ہے۔ یوں فلم کا اختتام دونوں جوڑوں کی خوشگوار زندگی کے آغاز پر ہوتا ہے۔

قارئین!….اب تک یوٹیوب پر پاکستانی فلموں پر کئے گئے ہمارے تمام تبصرے آپ یہاں کلک کر کے دیکھ سکتے ہیں

کاسٹ:
*-نذیر — (جانی)
*-سورن لتا — (رانی)
*-علاﺅالدین — (راجو)
*-ایم اسماعیل — (چوہدری لچھو)
*-زینت — (لچھی)
*-نذر — (چھجو) جانی کا دوست
*-مایا دیوی — (جگی) جانی کی والدہ
*-معاون اداکاروں میں بابا عالم سیاہ پوش اور فضل شاہ شامل تھے۔

تیاری :
فلم "پھیرے” کو انیس پکچرز کے بینر تلے تیار کیا گیا۔ فلم کی ہدایت کاری مسٹر مجید نے نذیر کی نگرانی میں کی۔ فلم کا بیشتر حصہ مسلم ٹاو¿ن لاہور کے پنجاب آرٹ سٹوڈیو(سابق پنچولی اسٹوڈیو نمبر 2 )میں عکس بند کیا گیا۔ کہانی مستری غلام محمد اور رانی ممتاز نے تحریر کی، مکالمے بابا عالم سیاہ پوش نے لکھے جبکہ موسیقی جی اے چشتی نے دی، فلم کی عکاسی رضا میر نے کی۔

موسیقی:
فلم کے گیت بابا عالم سیاہ پوش اور جی اے چشتی نے لکھے۔ ایک روایت کے مطابق موسیقار جی اے چشتی نے فلم کے 7گیت ایک ہی دن میں کمپوز کیے۔
گلوکاروں میں منور سلطانہ اور عنایت حسین بھٹی شامل تھے، یہ عنایت حسین بھٹی کی بطور گلوکار پہلی فلم تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس فلم کا ایک گیت اداکارعلاﺅالدین نے بھی گایا، تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

گیت:
اس فلم میں کل 11گیت شامل کئے گئے ،جن میں سے
*-اکھیاں لاویں نہ، فیر پچھتاویں نہ— (منور سلطانہ)
*-جے نہیں سی پیار نبھانا، سانوں دس جا کوئی ٹھکانا— (عنایت حسین بھٹی)
*-سپ دی ٹور نہ ٹر کڑئیے— (عنایت حسین بھٹی)
*-کیہہ کیتا تقدیرے، نی توں رول سٹے دو ہیرے— (منور سلطانہ)
اور
*-مینوں رب دی سونہہ تیرے نال پیار ہو گیا— (منور سلطانہ)
خاص طور پر بہت مقبول ہوئے، جبکہ باقی گیتوں میں
*-تاریاں دی چھانویں چھانویں آجا— (منور سلطانہ)
*-توں کوئل تے میں کاں— (عنایت حسین بھٹی)
*-ٹھپ ٹھپ ، میں تے ڈھولا اک— (؟)
*-دسو نی میں کیہہ کراں؟— (منور سلطانہ)
*-لے وے دلا ہن ٹٹیاں امیداں— (؟)
اور
*-میں باگاں دی مورنی— (منور سلطانہ) شامل ہیں۔

نمائش:
فلم 28 جولائی 1949ءکو عیدالفطر کے دن لاہور کے پیلس سینما میں ریلیز ہوئی، جہاں اس نے مسلسل 25 ہفتے چل کر پاکستان کی پہلی پنجابی سلور جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ کراچی میں اس کی نمائش 7 اپریل 1950ءکو پلازہ سینما میں ہوئی مگر وہاں زیادہ کامیابی نہ ملی۔ بھارت میں فلم نے شاندار کاروبار کیا۔

چربہ فلم اورمقبولیت:
جس طرح نذیر صاحب کی قبل ازیں بنائی جانے والی فلم ”سچائی “ ان کی اپنی ہی ایک فلم ”چھیڑ چھاڑ“ کا ری میک تھی، اسی طرح ان کی ”پھیرے“ بھی ان کی اپنی ہی 1945ءمیں بنائی گئی فلم ”گاﺅں کی گوری“ کا چربہ تھی،دراصل نذیر نے ”گاﺅں کی گوری “ بھی 1935ءمیں کولکتہ میں بنائی گئی ایک فلم ”شیلا عرف پنڈ دی کڑی“کی کاپی تھی۔
لیکن اس کے باوجود ”پھیرے“ نے ریلیز کے بعد زبردست عوامی پذیرائی حاصل کی۔ فلم کے گیت، کہانی اور اداکاری نے شائقین کو بے حد متاثر کیا۔ نذیر اور سورن لتا کی جوڑی پاکستانی فلمی تاریخ کی پہلی سپر ہٹ جوڑی کہلائی۔ عنایت حسین بھٹی بھی اس فلم سے بطور گلوکار مقبول ہو گئے اور بعد ازاں اداکاری میں بھی شہرت حاصل کی۔

اہمیت:
"پھیرے” پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہوئی۔ اس نے نہ صرف پنجابی زبان میں فلم سازی کے دروازے کھولے بلکہ پاکستان کی فلمی صنعت کو معاشی استحکام کی راہ پر بھی ڈالا۔ یہ فلم نذیر کے کیریئر کی نمایاں فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔

حوالہ جات:
1-روزنامہ امروز لاہور، 29جولائی 1949ء
2-”پاکستان کی 100شاہکار فلمیں“ ازیاسین گوریجہ
3-”پاکستانی سینما کی آدھی صدی“ از یاسین گوریجہ
4-غیر مطبوعہ ریکارڈ از شاہد پردیسی
5-”پاکستانی پنجابی فلمی گیت“ ازڈاکٹرنوید شہزاد (تصحیح: شاہد پردیسی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے