پنجاب اسمبلی کا ماحول ایک بار پھر سیاسی عدم برداشت اور پارلیمانی روایات کی پامالی کا شکار ہو گیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی تقریر کے دوران اپوزیشن کی شدید نعرے بازی، شور شرابا اور کاغذ پھاڑنے کے مناظر نے یہ ثابت کر دیا کہ ہمارے منتخب ایوان میں اختلاف اور احتجاج کا سلیقہ اب بھی ناپید ہے۔
اگرچہ احتجاج اپوزیشن کا آئینی اور جمہوری حق ہے، مگر اس کا ایک طریقہ اور ضابطہ ہوتا ہے۔ ایوان کا وقار مجروح کر کے، غیرپارلیمانی زبان استعمال کر کے اور حکومتی بینچز پر ایجنڈے پھینک کر کوئی بھی اپنی بات کا وزن نہیں بڑھا سکتا۔ دنیا کی مہذب پارلیمان میں احتجاج کی بھی ایک تہذیب ہوتی ہے، جہاں شور کے بجائے مؤثر جملے اور دلیل سے حکومت کو مشکل میں ڈالا جاتا ہے۔
اسپیکر ملک محمد احمد خان نے 26 اراکین کو 15 اجلاسوں کے لیے معطل کر کے ایوان میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی کوشش کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ وقتی فیصلہ ہے یا اس کے بعد بھی ایوان کا ماحول سنبھلے گا؟ ہمارے ہاں بدقسمتی سے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے بعد معافی تلافی کی روایت ہے، جس کے بعد کچھ عرصہ سکون اور پھر وہی پرانا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔
پنجاب اسمبلی:مریم نواز کی تقریر کے دوران ہنگامہ، 26 اپوزیشن ارکان 15 اجلاسوں کیلئے معطل
دوسری طرف اپوزیشن کا مؤقف بھی سننے کے قابل ہے۔ رکن اسمبلی اعجاز شفیع کا کہنا ہے کہ احتجاج ہمارا آئینی حق ہے، جسے دبایا نہیں جا سکتا۔ شعیب امیر نے تو طنزاً یہاں تک کہہ دیا کہ جب "ٹک ٹاکر وزیراعلیٰ” سال میں ایک بار اسمبلی آئیں گی تو احتجاج تو ہو گا۔
یہ جملہ محض طنز ہی نہیں، ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ بھی ہے کہ صوبے کی سربراہ کو ایوان کے ساتھ اپنا تعلق معمول بنانا چاہیے۔ اسمبلی محض بجٹ اجلاس یا رسمی تقریروں کے لیے نہیں، عوامی مسائل پر بحث کے لیے بھی ہوتی ہے۔ جب وزیراعلیٰ ایوان سے دور رہیں گی تو اپوزیشن کو احتجاج کا جواز ملے گا اور پھر ایوان کے ماحول کا وہی حال ہو گا، جو اب ہوا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت بھی اپوزیشن کے ساتھ پارلیمانی تقاضوں کے مطابق چلنے کی حکمت عملی اپنائے اور اپوزیشن بھی اپنے احتجاج کو مہذب اور مؤثر بنائے۔
ایوان کی حرمت سب پر مقدم ہونی چاہیے۔ اگر اسی طرح اسمبلی میدان جنگ بنی رہی، تو عوام کے اصل مسائل کون سنے گا؟
