اگر حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی امن کے نوبل انعام کے لیے کسی بھی سطح پر حمایت کی، تو یہ صرف ایران نہیں، پوری امت مسلمہ کے زخموں پر نمک پاشی ہوگی
گزشتہ شب دنیا نے وہ منظر دیکھا، جس کا خدشہ برسوں سے تھا اور جس کی پیش گوئی دنیا کے معتدل مزاج تجزیہ کار کرتے آئے تھے۔ امریکہ نے ایران پر براہ راست حملہ کر دیا۔ ایرانی سرزمین پر امریکی میزائلوں کی بارش، فضائی حملے، اور ایرانی عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنانا — ایک ایسا سانحہ ہے جس نے عالمی ضمیر کو دہلا کر رکھ دیا۔
ایسے میں خبر یہ بھی سامنے آئی کہ پاکستان کی بعض سرکاری حلقے ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام
کے لیے نامزد کرنے پر غور کر رہے ہیں، یا کسی عالمی لابی کے کہنے پر اس کی حمایت کا عندیہ دے چکے ہیں۔
یہ لمحہ ہوشربا ہے۔ تاریخ کا وہ نازک موڑ ہے، جہاں قوموں کے ضمیر، غیرت اور اصول آزمائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس شخص نے مشرقِ وسطیٰ میں آگ بھڑکائی، فلسطین کو کچلا، ایران پر جنگ مسلط کی، اور پوری دنیا کو ایٹمی تصادم کے دہانے پر لا کھڑا کیا — اسے امن کا پیامبر قرار دینا کون سی اخلاقی، انسانی اور اسلامی منطق ہے؟
کیا ہماری حکومت نہیں جانتی کہ یہی ٹرمپ تھا جس نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے مسلمانوں کے قبلۂ اول پر قبضے کو قانونی حیثیت دینے کی سازش کی؟ یہی ٹرمپ تھا جس نے ایران کے ساتھ عالمی معاہدے کو توڑ کر خطے کو جنگ کی آگ میں جھونکا؟
آج جب ایران کی سرزمین پر معصوم جانیں امریکی بمباری کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، مساجد کے میناروں پر اذانوں کی جگہ بم دھماکوں کی گونج سنائی دے رہی ہے، اور زخمی بچوں کی لاشیں ماؤں کی آغوش میں دم توڑ رہی ہیں — ایسے میں پاکستان کا کوئی بھی ذی شعور شہری یہ قبول نہیں کر سکتا کہ قاتلِ مشرقِ وسطیٰ کو امن کا علمبردار قرار دیا جائے۔
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے، جو لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بنا۔ جس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور ظالم کے خلاف ڈٹ جانا تھا۔ قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جس کا ایک حصہ زخمی ہو تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے۔ آج مشرقِ وسطیٰ زخمی ہے، ایران کی گلیاں خون سے رنگین ہیں، اور فلسطین کے بچے روتے ہیں۔ ایسے وقت میں امریکہ اور ٹرمپ کی حمایت تاریخ کا بدترین جرم ہوگا۔
حکومت پاکستان کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ اگر اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی امن کے نوبل انعام کے لیے کسی بھی سطح پر حمایت کی، تو یہ صرف ایران نہیں، پوری امت مسلمہ کے زخموں پر نمک پاشی ہوگی۔ پاکستان کا ہر باشعور شہری، عالم اسلام کا ہر ذی ضمیر فرد اور تاریخ کا ہر صفحہ اس بدنصیبی کو یاد رکھے گا۔
قوموں کی تاریخ میں چند لمحات ایسے آتے ہیں، جب ایک فیصلہ صدیوں تک ان کا کردار طے کرتا ہے۔ آج پاکستان بھی اسی موڑ پر کھڑا ہے۔
یا تو تاریخ میں سرخرو ہو کر مظلوموں کی صف میں کھڑا ہو، یا پھر ظالموں کے دربار میں اپنی غیرت گروی رکھ دے۔
اگر حکومت پاکستان نے بروقت ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی کی حمایت کا ارادہ واپس نہ لیا، تو نہ صرف یہ کہ ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی بلکہ تاریخ ہمیں "ان ضمیر فروشوں” کی صف میں لکھے گی جنہوں نے ظلم کے سامنے سر جھکا دیا۔
یہ وقت ہے کہ پاکستانی قوم، علمائے کرام، سیاست دان، طلبہ، صحافی اور ہر باشعور فرد آواز بلند کرے، اور حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ اس شرمناک فیصلے کو فی الفور واپس لے۔ امن کے نوبل انعام کا حقدار وہی ہو سکتا ہے جو خون کی ہولی نہ کھیلے، معصوم بچوں کی لاشوں پر اپنی سیاست نہ کرے، اور دنیا کو جنگ کی آگ میں نہ جھونکے۔
ورنہ یاد رکھیے — تاریخ بڑی بے رحم ہے۔ یہ معاف نہیں کرتی!
