آبنائے ہرمز کا بحران: ایران کی دھمکی، عالمی منڈی کی ہلچل اور بڑی طاقتوں کی سیاست

دنیا ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی آگ میں جھلسنے کو ہے۔ ایران اور اسرائیل کی کشیدگی خطرناک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ ایران کی پارلیمانی سلامتی کمیشن کے رکن اسماعیل کوثری نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔
یہ محض ایک اعلان نہیں، بلکہ عالمی معیشت، توانائی مارکیٹ، اور بین الاقوامی سیاست کے لیے ایک سنجیدہ انتباہ ہے۔ اس ممکنہ اقدام کے دنیا بھر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اور بڑی طاقتیں کس طرح اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی؟
آئیے اس بحران کے ہر پہلو کا جائزہ لیتے ہیں۔

آبنائے ہرمز: دنیا کی توانائی کی لائف لائن
آبنائے ہرمز دنیا کی سب سے مصروف اور اہم سمندری گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ صرف 33 کلومیٹر چوڑی اس آبنائے کے ایک طرف خلیج فارس اور دوسری جانب خلیج عمان واقع ہے۔ خلیج فارس کے 8 ممالک — ایران، عراق، کویت، سعودی عرب، بحرین، قطر، یو اے ای اور عمان — اپنی تیل و گیس کی برآمدات اسی راستے سے کرتے ہیں۔

اہم اعداد و شمار:
دنیا کا 20 فیصد خام تیل (روزانہ 20 ملین بیرل)،دنیا کی 5 فیصد ایل این جی اورہر ماہ 3,000 سے زائد بحری جہازاسی راستے سے گزرتے ہیں۔ 2023 میں یہاں سے 90 ارب کیوبک میٹر ایل این جی کی ترسیل ہوئی — جو عالمی ایل این جی تجارت کا 20 فیصد تھا۔

ایران کی حالیہ دھمکی اور عالمی منڈی کی تشویش
ایران کے اعلیٰ حکام نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں آبنائے ہرمز کی بندش پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ اس بیان کے بعد ہی عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں 13 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، اور سرمایہ کار اضطراب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
عالمی دفاعی و معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آبنائے ہرمز کی محض دھمکی بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں ہلا دیتی ہے، اور اس کی بندش تو دنیا کی معیشت کو سخت دھچکا دے سکتی ہے۔

کس کو فائدہ؟ کس کو نقصان؟
(فائدہ اٹھانے والے ممالک)
*روس…. اس سے روس کے تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، یورپ کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے گا اوراس کے ایشیا میں اثر و رسوخ بڑھے گا۔
*امریکہ….امریکی شیل آئل اور ایل این جی برآمدات میں اضافہ ہوگا، دفاعی سودے بڑھیں گے۔
*کینیڈا….کینیڈا بھی ایک تیل پیدا کرنے والا ملک ہے،تیل کی بلند قیمتوں سے فائدہ اٹھائے گا۔
*آسٹریلیا….آسٹریلیا ایل این جی کا بڑا درآمدی ملک ہے،اس سے خاص طور پر جاپان ، جنوبی کوریا اور چین میں اس کی گیس کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔
*ناروے….ناروے یورپ کا سب سے بڑا تیل اور گیس پیدا کرنے والا ملک ہے،مشرق وسطیٰ کی سپلائی رکنے سے یورپ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے زیادہ تر اسی پر انحصار کرے گا۔
*قطر….قطر دنیا کا سب سے بڑا ایل این جی برآمد کنندہ ہے اور اس کی سپلائی بھی آبنائے ہرمز سے گزرتی ہے، لیکن اگر وہ ایران کے ساتھ سفارتی توازن رکھ کر متبادل بحری راستہ یا ایران کے ساتھ مفاہمت کر لے تو خطے میں دیگر مسابقتی ممالک کی سپلائی متاثر ہونے کے باعث قطر کو بھی کچھ حد تک فائدہ ہو سکتا ہے۔

(نقصان اٹھانے والے ممالک)
*پاکستان….پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کا 60فیصدتیل اور گیس خلیجی ممالک سے درآمد کرتا ہے، یہ ایسے کسی بحران کا سب سے زیادہ متاثرہ فریق ہوگا۔
*بھارت….بھارت کا تیل کی درآمد پر انحصاربھی اسی راستے سے خلیجی ریاستوںپر ہے،اس لئے وہ بھی براہ راست بہت زیادہ متاثر ہوگا اور اس کا کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ بڑھے گنا۔
*چین…. چین کے توانائی اخراجات میںبھی اضافہ ہوگا اور اسکی معیشت پر دباو¿میں اضافہ ہوگا۔
*جاپان….جاپان بھی اپنی 90% توانائی کے لئے درآمد پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے لئے بھی مشکلات بڑھیں گی۔
*مشرق وسطیٰ….مڈل ایسٹ کی ریاستیں بھی اپنی ہی سپلائی رکنے سے مالی بحران ہوسکتی ہیں۔

امریکہ اور روس: امن کے نام پر مفادات کا کھیل
ایران اور اسرائیل کی کشیدگی میں امریکہ اور روس دونوں بظاہر امن کے داعی نظر آتے ہیں، لیکن درپردہ یہ صورتحال دونوں کے لیے مالی و سیاسی مفادات کا ذریعہ بن رہی ہے۔

(امریکہ)
*ایران کے خطرے کا ہوّا بنا کر خلیجی ممالک سے اربوں ڈالر کے اسلحہ بیچنے کا موقع ملے گا۔*اپنی شیل آئل اور ایل این جی کی برآمدات بڑھانے کا سنہری موقع ہاتھ آئے گا۔*یورپ کو روسی گیس چھوڑ کر امریکی گیس پر لانے کا بہانہ مل جائے گا۔

(روس)
*توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے اپنی گیس و تیل کی آمدنی میں اضافہ کرنے کا موقع ملے گا۔*یورپ میں توانائی کی قلت کے باعث اسے دوبارہ اپنی سپلائی کی پیشکش کرسکتا ہے۔*مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا اثر کمزور کرنے کی حکمت عملی کو موثر کرنے کا موقع ہاتھ آئے گا.*چین، ترکی، اور عرب دنیا میں سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ کا امکان پیدا ہوگا۔

کنٹرولڈ بحران: طاقتوروں کی پرانی حکمت عملی
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی طاقتیں جنگ اور بحران کا مکمل آغاز نہیں کرتیں بلکہ ایک ایسا کنٹرولڈ بحران پیدا کرتی ہیں، جو نہ مکمل جنگ ہوتا ہے، نہ مکمل امن۔
کیونکہ اس سے عالمی مارکیٹ متاثر ہوتی ہے،تیل و گیس کی قیمتیں بڑھتی ہیں،دفاعی معاہدے ہوتے ہیں، سیاسی اثر و رسوخ بڑھایا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر طاقتور ممالک فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ ترقی پذیر دنیا اس کھیل کا ایندھن بن جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے