کیا امریکہ، ایران اسرائیل جنگ میں کودنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟

(تحریر: شوکت علی چھینہ)
دنیا کی سیاست میں کبھی بھی جنگیں صرف اسلحے اور بارود کی بنیاد پر نہیں لڑی جاتیں بلکہ ان کے پیچھے سیاسی عزائم، معاشی مفادات اور عالمی طاقتوں کی چالیں کارفرما ہوتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا خطہ تو ویسے بھی گزشتہ صدی سے عالمی قوتوں کا میدان کارزار بنا ہوا ہے۔ اسرائیل کے قیام (1948) کے بعد سے لے کر آج تک خطے میں کوئی دہائی ایسی نہیں گزری جس میں کوئی بڑی جنگ نہ ہوئی ہو۔

1956ء کی سویز کینال جنگ ہو، 1967ء کی چھ روزہ جنگ ہو یا 1973ء کی یومِ کپور جنگ — ہر جھڑپ میں امریکہ نے اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا اور عرب ممالک کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر ایران — جو انقلابِ اسلامی (1979) کے بعد سے اسرائیل اور امریکہ کا کھلا مخالف رہا — آج جس جنگ کے دہانے پر ہے، اس کے اثرات 1967 اور 1973 کی جنگوں سے کہیں زیادہ خوفناک ہو سکتے ہیں۔

آج صورت حال یہ ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ ایران کی پراکسیز شام، لبنان، یمن اور عراق میں امریکی و اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنا رہی ہیں جبکہ اسرائیل، شام اور لبنان میں ایرانی تنصیبات پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔ اگر اس تناؤ میں امریکہ براہِ راست کود پڑتا ہے تو خطہ مکمل طور پر جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔

ممکنہ منظرنامہ:
امریکہ کی مداخلت کے ساتھ ہی ایران سب سے پہلا اقدام آبنائے ہرمز بند کرنے کا کرے گا، جہاں سے دنیا کا 20 فیصد تیل گزرتا ہے۔ 1980 کی ایران عراق جنگ کے دوران بھی ایران نے یہ حربہ آزمایا تھا۔ اس بندش کا مطلب ہو گا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 150 ڈالر فی بیرل سے اوپر جا سکتی ہے اور یورپ، ایشیا اور امریکہ کی معیشتیں بری طرح متاثر ہوں گی۔

دوسری جانب، حزب اللہ، حوثی باغی، حشد الشعبی اور فلسطینی تنظیمیں اسرائیل اور مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی اڈوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیں گی۔ 2006ء کی اسرائیل-حزب اللہ جنگ کا تجربہ اسرائیل کے لیے ابھی تک ایک خوفناک یاد ہے، جب حزب اللہ نے ہزاروں راکٹ داغے اور اسرائیلی دفاعی نظام مکمل طور پر ناکام ہو گیا تھا۔ آج ایران کے پاس اس سے کہیں زیادہ جدید اور رینج والے میزائل موجود ہیں۔

چین اور روس کا کردار:
تاریخ گواہ ہے کہ بڑی جنگیں ہمیشہ بلاک بننے سے شدت اختیار کرتی ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا پس منظر یہی تھا۔ آج چین اور روس ایران کے اہم اتحادی ہیں۔ روس یوکرین جنگ میں پہلے ہی مغرب سے برسرپیکار ہے، اور چین، امریکہ کے ساتھ تجارتی اور تائیوان کے محاذ پر الجھا ہوا ہے۔ ایران پر حملے کی صورت میں یہ دونوں ممالک مشرق وسطیٰ کو امریکی اثرورسوخ سے نکالنے کا تاریخی موقع سمجھ کر میدان میں آ سکتے ہیں۔

پاکستان اور ترکیہ کا امتحان:
پاکستان کے لیے یہ جنگ ایک انتہائی کٹھن خارجہ پالیسی کا بحران لے کر آئے گی۔ ایک جانب امریکہ کا دباؤ اور معاشی مجبوری، دوسری جانب ایران کے ساتھ مذہبی و جغرافیائی تعلقات اور عوامی ہمدردی۔ ماضی میں 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران پاکستان نے عرب ممالک کا ساتھ دیا تھا اور اسرائیلی فضائیہ کے خلاف پاکستانی پائلٹ بھی شام اور اردن میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اب اگر جنگ چھڑتی ہے تو پاکستان پر ایران کا ساتھ دینے یا غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کرنے کا بے پناہ دباؤ ہو گا، تاہم زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ایران کا ساتھ دے سکتا ہے۔

ترکیہ بھی اسی طرح کی کشمکش کا شکار ہو گا، تاہم رجب طیب اردگان اسرائیل اور امریکہ مخالف بیانیہ تو اختیار کر کے عالم اسلام میں اپنی مقبولیت کو کیش کرانے کی کوشش کریں گے، جیسا کہ وہ فلسطین کے معاملے پر بارہا کرتے آئے ہیں لیکن عسکری طور پر ایران کی حمایت سے گریز کریں گے۔

خلیجی ریاستوں کی مشکل
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر جیسے ممالک جو ایک طرف امریکہ کے اتحادی اور دوسری طرف ایران کے قریبی ہمسائے ہیں — ان کے لیے بھی یہ جنگ ایک نازک موڑ ہو گی۔ 1991ء کی خلیج جنگ میں بھی ان ریاستوں نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا، جس کے نتیجے میں ایران کا ردعمل آج بھی برقرار ہے۔ اب جبکہ ایران کے میزائل پروگرام نے بے پناہ ترقی کر لی ہے، ان ریاستوں پر حملوں کا خطرہ کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔

عالمی معیشت اور انسانی بحران
امریکی مداخلت کا ایک اور سنگین پہلو عالمی معیشت کی تباہی اور انسانی بحران کی صورت میں سامنے آئے گا۔ لاکھوں افراد کی ہجرت، تیل و اجناس کی قیمتوں میں شدید اضافہ، اور عالمی منڈیوں کی تباہی کی صورت میں پوری دنیا اس جنگ کی قیمت چکائے گی۔

کیا تیسری عالمی جنگ؟
اگر اس جنگ میں چین، روس اور ایران ایک بلاک میں آ کر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں، تو یہ صورت حال بالکل 1939 جیسی ہو سکتی ہے، جب جرمنی، اٹلی اور جاپان نے مل کر یورپ اور ایشیا میں آگ لگا دی تھی۔ اس جنگ کا نتیجہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے آیا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ ایران اسرائیل جنگ میں کودنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اس پر تاریخ، زمینی حقائق اور عالمی سیاست کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ اس کے نتائج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے تباہ کن اور ناقابلِ پیش گوئی ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے