(تحریر: شوکت علی چھینہ)
گزشتہ کچھ عرصے سے امریکہ کا رویہ پاکستان کے ساتھ جس غیر متوقع نرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے، وہ حیران کن بھی ہے اور شکوک بھی پیدا کرتا ہے۔ جس امریکہ نے چند ماہ پہلے تک پاکستان کو سیاسی و معاشی دباﺅ میں رکھنے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے مشکلات میں جکڑنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی، اب وہی امریکہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ کیوں دکھا رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کہیں یہ سارا معاملہ ایران اسرائیل تنازع کے تناظر میں تو نہیں؟
بھارت اور پاکستان: امریکہ کا متضاد رویہ
امریکہ برسوں سے بھارت کو خطے میں اپنا اسٹریٹجک اتحادی بنا رہا ہے۔ دفاعی معاہدے ہوں یا سی پیک مخالف اقدامات، امریکہ اور بھارت ایک صفحے پر نظر آتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایران اسرائیل تنازع پر امریکہ نے بھارت سے کھل کر ایران کے خلاف عملی مدد کا تقاضا نہیں کیا، بلکہ سفارتی طور پر محتاط رویہ اپنایا۔ اس کے برعکس پاکستان کے ساتھ واشنگٹن کا رویہ اچانک "بہتر” ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بدلتا لہجہ اور نرم الفاظ خطے کے سیاسی حالات کو سمجھنے والوں کے لیے کئی سوالات چھوڑ رہے ہیں۔
ایران اسرائیل جنگ: پاکستان کی ممکنہ پوزیشن
پاکستان بظاہر ایران اسرائیل تنازع میں غیر جانبدار رہنے کا خواہاں ہے، لیکن زمینی حقائق اور جغرافیائی و نظریاتی رشتے ایسا آسان نہیں بناتے۔ پاکستان کے اندر مذہبی طبقہ، ایران کے ساتھ روحانی و مسلکی تعلق رکھنے والے حلقے اور خطے کی اسٹریٹجک حساسیت کے باعث یہ امکان موجود ہے کہ اگر ایران پر براہ راست حملہ ہوا تو پاکستان، سفارتی یا خاموش تکنیکی مدد فراہم کر سکتا ہے۔
یہی وہ نکتہ ہے جس نے امریکہ کو فکرمند کیا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ اگر پاکستان نے ایران کی کسی بھی سطح پر مدد کی تو چین، روس اور ایران کا بلاک اور مضبوط ہوگا، اور امریکی مفادات کو مشرق وسطیٰ، بحیرہ عرب اور افغانستان میں شدید دھچکا لگے گا۔
امریکہ کی حکمت عملی: پہلے قریبی بنو، پھر دباﺅ ڈالو
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں لچک پیدا کر کے پہلے اسے دوبارہ اپنی معاشی اور سفارتی چھتری تلے لانا چاہتا ہے، تاکہ ایران کے ساتھ کوئی عملی تعاون کرنے کی صورت میں اسے فوری طور پر دباو? میں لا کر روک سکے۔ اس کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان کا جھکاﺅایران کی طرف نہ ہو، یا کم از کم پاکستان کو غیر جانبدار رکھا جا سکے۔
اس کے لیے امریکہ ایک طرف IMF کے معاملات میں سہولت دے رہا ہے، تو دوسری طرف پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو بارہا پیغامات بھجوا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی اس کشمکش میں پاکستان کو ‘نیوٹریلیٹی’ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
کیاپاکستان دباؤ میں آئے گا؟
پاکستان کے لیے یہ ایک انتہائی نازک فیصلہ ہو گا۔ بیک وقت چین، سعودی عرب، ایران، ترکی اور امریکہ جیسے متضاد مفادات رکھنے والے ممالک کے درمیان توازن برقرار رکھنا آسان نہیں۔ امریکہ کی یہی کوشش ہے کہ پاکستان کو معاشی مراعات اور سفارتی لالی پاپ دے کر ایران سے دور رکھا جائے۔
لیکن پاکستان اگر ماضی کی طرح قلیل المدتی مفاد کے لیے اپنی اسٹریٹجک اہمیت کا سودا کرے گا، تو یہ نہ صرف خطے میں اس کی پوزیشن کمزور کرے گا بلکہ مستقبل میں چین اور روس جیسے اتحادی بھی اس پر اعتماد کھو بیٹھیں گے۔
امریکہ کا پاکستان کے ساتھ حالیہ نرم رویہ دراصل ایک اسٹریٹجک چال لگتی ہے، تاکہ ایران اسرائیل تنازع میں پاکستان کو ایران سے کسی بھی قسم کی حمایت سے باز رکھا جا سکے۔ خطے کی بدلتی سیاسی فضا میں پاکستان کو بڑی حکمت، تدبر اور دور اندیشی سے قدم رکھنا ہو گا، تاکہ اپنے قومی مفاد اور علاقائی توازن دونوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔
