عمران خان کو کسی عہدے کی ضرورت نہیں، سب جانتے ہیں کہ لیڈر وہی ہیں: اسد عمر

حکومت معیشت کے استحکام کا دعویٰ کرے یا نہیں، ٹیکس ریلیف دینا اب ناگزیر: ماہرین
حکومت کو اب ٹیکسوں میں ریلیف دینا ہی پڑے گا:خرم حسین
ٹیکس کا بوجھ صرف سیلرڈ کلاس پر ڈالنا زیادتی ہے، ریٹیل اور ریئل اسٹیٹ بھی حصہ ڈالیں: عزیر یونس

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت کے حوالے سے کچھ الجھن سی پیدا ہوئی ہے، پہلے ذمہ داری جنید اکبر کے پاس تھی، پھر علی امین گنڈاپور کو سونپی گئی، اور اب کہا جا رہا ہے کہ عمر ایوب اور سلمان اکرم راجہ یہ ذمہ داری مشترکہ طور پر ادا کریں گے۔ اس صورتحال میں علامتی طور پر کہا جا رہا ہے کہ عمران خان ہی پارٹی کی قیادت کریں گے۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو کسی عہدے کی ضرورت نہیں، سب جانتے ہیں کہ پارٹی کے اصل لیڈر وہی ہیں۔

ایک نجی ٹی وی کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے (ن) لیگ کی اندرونی صورتحال پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں دونوں کیمپس کو شریف خاندان ہی لیڈ کر رہا تھا۔ مزاحمتی گروپ کی قیادت نواز شریف اور مریم نواز کے پاس تھی جبکہ مفاہمتی گروپ کی قیادت شہباز شریف کر رہے تھے، اس لیے ان کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان نہیں تھا۔

معروف ماہر معیشت خرم حسین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اب ٹیکسوں میں ریلیف دینا ہی پڑے گا۔ خاص طور پر سیلرڈ کلاس اور فارمل بزنس سیکٹر پر ٹیکس کا بوجھ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب یہ برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ خرم حسین کے مطابق حکومت پہلے بھی کہتی رہی ہے کہ یہ ایک عارضی بندوبست ہے اور معیشت کے استحکام کے بعد اسے بہتر کیا جائے گا۔ اب جب حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ معیشت مستحکم ہو چکی ہے تو ریلیف دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ تاہم، اگر سیلرڈ کلاس کو ریلیف دیا جائے گا تو اس کی تلافی کے لیے نئے ذرائع آمدن تلاش کرنا ہوں گے۔

دوسرے ماہر معیشت عزیر یونس نے کہا کہ پاکستان کے ٹیکس نظام کا اصل مسئلہ ہمیشہ سے وہ مخصوص مفاداتی گروپس رہے ہیں جو ریٹیل، زراعت اور ریئل اسٹیٹ سیکٹرز میں ہیں اور ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے سے انکاری رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دفاع وطن کے لیے اگر قربانی سب سے برابر لی جاتی ہے تو ملک کی خوشحالی کے لیے بھی سب کو برابری کا حصہ ڈالنا ہوگا۔ عزیر یونس نے بھی خرم حسین کی تجویز کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان رکاوٹ بننے والے طبقات سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے